Tuesday, May 24, 2005

The Fraud Who Went a Step Too Far (Part II)


Transcript of Jahil-Online’s ‘blasphemous’ interview

(Daily Times, 7 May 2005)

Daily Times: You said the ISI was the architect of jihadis and you said now the ISI is arresting the jihadis. Now who is putting hurdles in the way of the government and who is actually threatening enlightened moderation?

Jahil-Online: Many people told me not to make such statements but I am outspoken. There is an ISI within the ISI, the former more powerful than the original. They were the godfathers of the Taliban. Who attacked President Musharraf? Only Army personnel can do this. A third attempt on President Musharraf’s life is also possible. There are people who are enemies of Musharraf Saheb. They will not spare me either. My life is in danger too. President Musharraf should be careful about his life. He has his enemies within.

Daily Times: Do you have any evidence to substantiate your claim with regard to “an ISI within the ISI”?

Jahil-Online: Yes, there is plenty of evidence. For example, look at the tenor and tone of MMA chief Qazi Husain Ahmed. From where does he derive the confidence to claim that he would have Musharraf kicked out of the army very soon. Yes, he has got ‘some people’ behind him.

Daily Times: What do you mean by “enemies within”? Does it mean the Army?

Jahil-Online: Look, President Musharraf has on a number of occasions told the nation that the real threat to the country was from within. Which means there exists an internal threat, far greater than any outer one. Well, internal threat includes the Army.
____________________________________________

Moral of the Story: You can lie, cheat, bullshit and commit fraud at the highest levels and get away with it but even Commando Salamat can’t protect you if you besmirch a most hallowed institution.


1 comment:

Unknown said...

جس معاشرے میں عدل نہ ہو وہاں اللہ کا فضل نہیں ہوتا،عامرلیاقت

لاہور(نمائندہ جنگ) معروف ریسرچ اسکالر اور جیو نیٹ ورک کے وائس پریذیڈنٹ ڈاکٹر عامر لیاقت حسین نے کہا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی معراجوں میں سے ایک معراج یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے کردار کی فقید المثال بلندی سے خون کے پیاسوں اور بت پرستوں کوخدائے واحد کی بارگاہ میں سرنگوں کرکے یہ ثابت کردیا کہ طاقت تلوار میں نہیں بلکہ کردار میں ہوتی ہے لاہور میں سینٹرل کالج برائے خواتین میں ”اسوہٴ حسنہ اور حسنِ معاشرت“ کے موضوع پر لیکچر دیتے ہوئے ممتاز مقرر نے کہا کہ جس معاشرے میں عدل نہیں ہوتا اُس معاشرے پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں ہوتااِسی لیے تمام انبیا اور بالخصوص پیغمبرآخر الزماں اور اُن کے اصحاب نے اپنی مبارک حیاتیں صرف اور صرف عدل،انصاف اوراللہ کے قانون کی بالادستی کے لیے وقف کردی تھیں اور یہی وہ فطری حسن تھا جس نے حسنِ معاشرت کو جنم دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ اسوہٴ حسنہ دراصل حق کے پرچارکا نام ہے جس کے اصول جبر و استبداد نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاق ہیں اور ہمارے پیارے نبی نے اِس راہ میں ناقابلِ بیان تکالیف سہہ کر تمام عالم انسانیت پر یہ واضح کردیاکہ کسی بھی انسان کے لیے استقامت سے بہترکوئی ہتھیار نہیں، اورمقصدکے حصول کے لیے ہمیشہ ڈٹنا ہے ،پتھرکھاکرہٹنا نہیں ہے ۔ اُنہوں نے کہاکہ جس طرح ہمارے نبی کے ہر عمل کی ایک معراج ہے اُسی طرح اسوہٴ حسنہ کی معراج معاشرے میں حق و انصاف کا قیام ہے جس نے طاقت وروں کے تکبرکو پارہ پارہ کردیا۔عامر لیاقت کا کہنا تھا کہ نظامِ عدل پرسوال اُٹھانے والوں کو تاریخ نے خوارج کے علاوہ اور کوئی نام نہیں دیااور آج بھی جو اللہ کے نظامِ عدل اور نبی کے پیمانہٴ انصاف کامنکر ہے وہ اسلام ہی نہیں بلکہ انسانیت کی صفوں سے بھی خارج ہے ۔اُنہوں نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو حسنِ معاشرت کی بنیاد اُسی دن رکھ دی تھی جب بعض بااثر افراد نے سرکار کے بہت ہی پیارے اُسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ذریعے کسی ملزم کے حق میں سفارش کرانا چاہی توکریم المرتبت نے سفارش،پرچی اور تعلقات کے دباؤکو یہ کہہ کر ہمیشہ کے لیے ختم کردیا کہ ”محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اُس کے ہاتھ کاٹ دیتا“۔اُنہوں نے کہا کہ نبی کا یہ عمل ایک جانب اپنے پیارے اُسامہ کو ایسے لوگوں سے ہوشیار کرانا تھا تو دوسری جانب اپنا اور اپنی بیٹی کا تذکرہ کرکے بااثر افراد کو یہ باورکرانا تھا کہ تم سب ہی جان لوکائنات میں ہم سے زیادہ افضل ،اعلیٰ اور بااثرکون ہوگا؟ اورکون تصور بھی کرسکتا ہے کہ سیدہ فاطمہ (معاذ اللہ)چوری کریں گی؟لیکن جب قانون کی عملداری کے لیے جب میں اپنے جگرکے ٹکڑے کا صرف مثال دینے کے لیے نام لے سکتا ہوں توپھر کسی اور کی حیثیت ہی کیا ہے ۔عامر لیاقت کا یہ لیکچر 2گھنٹے جاری رہا جسے طالبات کی ایک کثیر تعداد نے انتہائی انہماک سے سنا اور بعد میں اُن سے سوالات بھی کیے۔اِس موقع پر ممتاز کالم نگاروں سیدارشاد احمد عارف ، رؤف طاہر،جیو نیٹ ورک کے ڈائریکٹر انفوٹینمنٹ عبدالرؤف اور ممتاز صحافی و دانش ور ضیا الحق نقشبندی نے بھی خطاب کیا اور عامر لیاقت حسین کو زبردست خراجِ تحسین پیش کیا۔تقریب میں سینٹرل گروپ آف کالجزکے بانی میاں عادل رشید کے علاہ میاں عمر رشید،میاں عمیر اور یونس بھٹی بھی موجود تھے جبکہ نظامت کے فرائض عقیل احمد نے انجام دیے۔

https://www.facebook.com/photo.php?fbid=381498155277314&set=a.150376981722767.33163.144933782267087&type=1&relevant_count=1